حوزہ نیوز ایجنسی کی بین الاقوامی سروس کی رپورٹ کے مطابق لبنانی میڈیا کی سیاسی،سماجی کارکن اور دستاویزی فلم میکر محترمہ سحر غدار وہ لبنانی ہیں جنہیں لبنان میں اس وقت سماجی اور سیاسی فعالیت کے ساتھ یاد کیا جاتا ہیں۔ اپنے شہریوں کے سماجی اور سیاسی حقوق میں اپنی فعالیت کے علاوہ وہ لبنانی مزاحمت کے نمایاں حامیوں میں سے ایک ہیں۔انھوں نے حال ہی میں "حسین پاک" نامی ہدایت کار کی بنائی گئی ایک دستاویزی فلم میں بطورِ راوی لبنان کے واقعات کا جائزہ بھی پیش کیا ہے۔
دستاویزی فلم "سحر" کی راوی خود بھی لبنان میں پرامن احتجاج کے اہم عناصر میں سے ایک رہی ہیں اور ٹوئیٹر پر بھی سرگرم رہتی ہیں۔ محترمہ غدار کا ٹوئیٹر ان چند لبنانی ٹوئیٹر اکاؤنٹس میں سے ایک ہے جن کے فالوورز کی تعداد لبنان میں پہلے نمبر پر ہے۔ وہ ہمیشہ سے معاشرتی بدعنوانی سے مقابلہ میں بہت فعال رہی ہیں۔ انہیں لبنان میں ایک مزاحمتی شخصیت کے طور پر جانا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں حوزہ نیوز ایجنسی کی بین الاقوامی سروس نے اس لبنانی فعال کارکن خاتون کا انٹرویو کیا ہے جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:
حوزہ: براہ کرم اپنا تعارف کرائیں اور لبنان کی اجتماعی و سماجی صورتحال کو ان مختلف بحرانوں کے حوالے سے بیان کریں جن کا لبنانی عوام موجودہ حالات میں سامنا کر رہے ہیں۔
میں ایک لبنانی صحافی ہوں۔ سوشل میڈیا میں مہارت کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی کارکن اور نیشنل ریسکیو ٹیم کی ممبر ہوں۔ لبنان کی اجتماعی صورت حال کے بارے میں یہ ضرور کہوں گی کہ صورت حال بہت نازک ہے۔ خاص طور پر ڈالر کے مقابلے میں قومی کرنسی کی قدر میں کمی کے بعد لبنان میں بڑے پیمانے پر کرپشن اور بدعنوانی کے مقدمات تشکیل پائے ہیں۔ اسی طرح ملکی داخلی قرضوں کے غیر ملکی قرضوں میں تبدیل ہونے اور اس کے بعد یہ قرضے غیر ملکی کرنسی میں تبدیل ہونے کی وجہ سے ان کی شرح سود میں بھی بہت اضافہ ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے اس سال لبنان میں یہ قرضے ایک سو گیارہ بلین ڈالر تک پہنچ گئے ہیں اور لبنان کو اقتصادی خسارے کا سامنا ہے۔ جس سے لبنان کی اقتصادی صورت حال مزید خراب ہونے کا خطرہ ہے۔
حوزہ: آپ کے خیال میں "الطیونہ" کے مسائل کے پیچھے کیا محرکات تھے اور "سمیر جعجع" اور لبنان میں موجود امریکی، اسرائیلی اور سعودی اتحادیوں کا اصلی ہدف کیا ہے؟
الطیون میں ہوئے دلخراش واقعات اور اس سے جو کشیدگی پیدا ہوئی ہے وہ سب امریکی منصوبوں کا نتیجہ ہے۔ آج لبنان میں حزب اللہ کے حریف مخالفین کا کوئی بھی مخالف حزب اللہ کو خانہ جنگی کی طرف نہیں لے جا سکتا اور نہ ہی اسے کمزور کر سکتا ہے۔ عسکریت پسندوں کا رہنما "سمیر جعجع" لبنانی زبان میں بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ لوگ لبنان میں خانہ جنگی نہیں چاہتے اور خانہ جنگی کی مذمت کرتے ہیں لیکن ان کی تاریخ حزب اللہ کے ساتھ خانہ جنگیوں سے بھری پڑی ہے اور ان کا لبنانیوں کا خون بہانے کا ایک طویل سابقہ موجود ہے۔
لبنان میں تمام گھناؤنے جرائم امریکہ کی حمایت سے ہی انجام پاتے ہیں !
حوزہ: جناب سید حسن نصر اللہ نے "الطیونہ" کے واقعات کے بارے میں اپنی تقریر میں کہا کہ حزب اللہ میں ایک لاکھ فوجی موجود ہیں اور یقینا حزب اللہ خانہ جنگی میں شریک ہونے کا ارادہ نہیں رکھتی تو ان کے اس پیغام کا مقصد آپ کی نظر میں کیا تھا اور وہ دشمنوں کو کیا پیغام دینا چاہتے تھے؟
زمانۂ قدیم سے جنگ کے وقت رجز پڑھے جایا کرتے تھے۔ جب ایک سپاہی اور جنجگو میدان میں جاتا اور اپنی طاقت اور شجاعت کا مظاہرہ کرتا تو اس طرح وہ لوگ سب سے پہلے اپنا تعارف کراتے کہ میں مثال کے طور پر کسی خاص شخص یا قبیلہ کا بیٹا اور فرد ہوں۔ اور وہ اشعار میں کہتا تھا کہ ’’میں ہوں‘‘، میں کون ہوں اور میری تاریخ کیا ہے، میں مثلا عربوں کا جنگجو ہوں اور وہ اپنے رجز خوانی میں اس طرح کے جملات ادا کرتے تھے جس سے ان کی طاقت اور عظمت کا پتہ چلتا تھا۔
سید حسن نصر اللہ کے الفاظ "جعجع" جیسے شرپسند کو اپنی اوقات دکھانے جیسے تھے
سید مقاومت جناب سید حسن نصر اللہ نے ایک لاکھ جنگجوؤں کے اظہار سے "جعجع" جیسے شرپسند کو اپنی اوقات دکھائی ہے۔
میرے خیال میں سید حسن نصر اللہ کا لبنانی ملیشیا کے سربراہ جو کہ اپنے تئیں خانہ جنگی کی تلاش میں تھا یا اس وہم و گمان میں تھا کہ وہ لوگ شاید اس خانہ جنگی سے حزب اللہ کے خلاف کچھ کر سکتے ہیں، سے جو خطاب تھا اس میں انہوں نے واضح طور پر انہیں یہ پیغام دیا کہ ان کے پاس 100,000 جنگجو اور مجاہدین موجود ہیں اور اس بات پربھی زور دیا کہ اس تعداد میں صرف لبنانی اور مرد جنگجوؤں کا بتایا گیا ہے اور خواتین اور غیر لبنانی مجاہدین اس میں شامل نہیں ہیں اور درحقیقت ان کے مجاہدین اور جنگجوؤں کی تعداد اس تعداد سے کہیں زیادہ ہے تو میرے خیال میں سید حسن نصر اللہ نے اپنے الفاظ سے"سمیر جعجع" کو اس کی اوقات دکھاتے ہوئے اسے متنبہ کیا تاکہ وہ اپنے پاگل پنے اور غلط اقدامات سے باز رہے۔
حوزہ:لبنان کے موجودہ حالات کہ جہاں اب حزب اللہ متعدد داخلی بحرانوں سے نبرد آزما ہے اور مغربی، امریکی اور سعودی میڈیا حزب اللہ کو ان مسائل کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں تو ایسے میں حزب اللہ کی عوامی مقبولیت کا تناسب کیسا ہے اور ان سب سازشوں کے باوجود آیا حزب اللہ کی محبوبیت میں کسی طرح کی کوئی کمی واقع ہوئی ہے؟
اگر ہم حزب اللہ کی مقبولیت کے بارے میں بات کریں تو یاد رہے کہ 2018ء کے انتخابات میں حزب اللہ نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کئے اور وہ بھی لبنان کی تمام جماعتوں کے ساتھ مل کر سب سے زیادہ ووٹ حاصل کئے تھے۔ تاہم ممکن ہے کہ ان معاشی حالات میں کچھ لوگ کم حوصلہ بھی ہو سکتے ہیں لیکن اب بھی زیادہ تر لوگ حزب اللہ کے حق میں ہیں۔حزب اللہ نے اس ملک میں حمل و نقل کو بھی قائم کر رکھا ہے اور امن و سلامتی چاہتی ہے اور یہ وہ جماعت ہے جس نے اس ملک کو آزاد کرایا ہے اور مظلوموں کی مدد کر رہی ہے۔
یہ جماعت آج کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف لڑنے کے ساتھ ساتھ لبنانی عوام کے لئے فلاحی امور سمیت کئی دوسرے کام بھی انجام دے رہی ہے۔لہذادشمن میڈیا کی تمام تر کوششوں کے باوجود حزب اللہ کی مقبولیت اپنی جگہ برقرار ہے اور یہ کہنا کہ خدانخواستہ حزب اللہ کی مقبولیت میں کسی قسم کی کمی واقع ہوئی ہے بالکل بھی صحیح نہیں ہے۔